گھر کی گھنٹی بجتے ہی کچن میں کام کرتی بڑی اور منجھلی بھابی کے کان کھڑے ہوگئے ۔چھوٹی بھابی دروازہ کھولنے گیئں اور امید واثق کے مطابق دروازے پر نائلہ تھی دو بچوں کی انگلی پکڑے ایک کو گود میں اٹھائے اور چوتھے کو شکم میں لیے ہانپتی کانپتی اندر آئی چھوٹی بھابی نے جلدی سے آگے بڑھ کر گود کا بچہ پکڑا اور نائلہ اپنا بڑا سا پرس سنبھالے اندر کی طرف جانے لگی
کچن پر نظر پڑی تو منجھلی اور بڑی بھابی کی طنزیہ نگاہیں اندر تک کاٹتی چلی گیئں نائلہ نے لاشعوری طور پر پرس کو چادر کے اندر کیا اور کمرے میں چلی گئی پیچھے سے دبی دبی مذاق اڑاتی ہنسی کی آواز آتی رہی
بڑی بھابی نے سالن بھونتے بھونتے منجھلی بھابی سے نظر بچا کر بڑی سے بوٹی منہ میں ڈال لی۔
اور بس جیسے تیسے نگل کر بولیں
آگئی محترمہ مہینہ کا آخر جو چل رہا ہے ہوگیا ہوگا راشن ختم
ہاں بھئی باپ کے گھر تو پیسے اگانے کا درخت ہے نا جیسے اور بھائی پیسہ کمانے کی مشین ہنہہ
یہ کہہ کر بھابی نے اپنے برانڈڈ سوٹ کے ڈوپٹے سے ماتھا پونچھا
ویسے تو گھر کے سارے کام ماسی کرتی ہے بس کچن اپنے ھاتھ میں رکھا ہے باہمی مشورے سے روز کھانا پکانے کی باری مقرر ہے بڑی منجھلی اور چھوٹی بھابی کی
بڑے بھیا کا اپنا بزنس ہے کپڑے کا منجھلے بھیا کی دکان ہے صدر میں جوتوں کی اچھی خاصی کمائی ہوجاتی ہے خیر سے اور چھوٹے بھیا نوکری کرتے ہیں کیونکہ تینوں بھائیوں میں صرف وہی پڑھے لکھے ہیں
اور دونوں بڑے بھائیوں کے درمیان میں تھی نائلہ اکلوتی بہن ۔۔۔
دو بیٹوں کے بعد اماں نے بہت دل سے مانگی تھی اللہ اس بار تو رحمت کر دے اور ایک ننھی منی گڑیا سے نواز دے بارگاہ الہی میں دعا قبولیت کے درجہ پر پہنچی اور اللہ نے نائلہ کی صورت میں چاند سی بیٹی جھولی میں ڈال دی نائلہ کے سال بعد پھر نعمت سے نواز دیا یوں نائلہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ۔
بھائی کیا ماں باپ بھی جان چھڑکتے تھے اپنی لاڈلی پر اماں ایسے ایسے پیارے بال بناے رکھتی تھیں اور ایسے ایسے کپڑے سی کر پہناتی تھیں
تھوڑی بڑی ہوئی تو تربیت بھی کی ساتھ ایسا نہیں تھا کہ لاڈ کے نام پر شتر بے مہار چھوڑ دیا ہو
نائلہ ابھی فرسٹ ایئر میں تھی کہ دونوں بھائیوں کی شادی کا شور اٹھا اماں نے سوچا دونوں کی شادی ایک ساتھ کر کہ چلو یہ قصہ بھی نمٹا ہی دیں مگر ہاے ری معصوم اماں اپنی طرف سے بھولی بھالی کم گوشرمیلی سے بہویں لا رہی تھیں ۔۔۔۔
بس زبان کے جوہر گھر آنے کے بعد ہی کھلے
دونوں کزن تھیں رشتے میں بڑی اور چھوٹی بھابی
اور اماں کی کسی دور پار کی کزن کی جان پہچان کے لوگ تھے بس چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا اللہ اللہ خیر صلا
نائلہ تو بھابیوں کے آنے سے بہت خوش تھی
لیکن کچھ دن بعد ہی ۔۔۔۔۔
فضا کچھ بدلی بدلی سی لگنے لگی تھی اور ایک غیر محسوس سا تناؤ تھا ماحول میں سمجھ بھی نہیں آتا تھا
اصل میں یہ جو ماں باپ اور بھائیوں کی لاڈلی ہوتی ہے نا بس یہ جب تک ہوتی ہیں جب تک بھائیوں کی یا انکی اپنی شادی نا ہوجائے ۔۔نائلہ تو یہی سوچتی تھی
بھائیوں کے رویے میں کچھ کچھ تبدیلی محسوس کی تھی نائلہ کی عمر اتنی نہیں تھی لیکن سمجھدار تھی
لاڈ پھاٹ بھی رک گئے تھے ابھی ایف اے ہی پاس کیا تھا نظروں میں بھی کھٹکنے لگی
بھائیوں نے شادی کردو شادی کر دوکی رٹ لگا دی صرف نائلہ سے چھوٹا بھائی اسکا ساتھ دیتا تھا لیکن چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسکی سنتا کون تھا؟
جب اماں شادی کو نا مانیں تو کہا کہ پھر کالج سے ہٹا لیں ہم سے نہیں فیسیں بھریں جاتیں اماں نے چپ چاپ کالج سے ہٹا لیا
باپ زندہ ہوتا تو دیکھیتں کون کہتا یہ اب گھر میں نائلہ کی چکری چلی رہتی یہ منا پکڑ لو منی کو نہلا دو زرا یہ سبزی کاٹنا آٹا گوندھ دو مشین لگا لو
نائلہ نے بھی حالات سے سمجھوتہ کر کہ چپ چاپ سب برداشت کیا
پھر اماں کے کسی دور کے رشتے دار اپنے بیٹے کا رشتہ لیکر آگئے
اماں یہ رشتہ کرنا تو نہیں چاہتی تھیں لیکن سب نے ملکر دباؤ ڈالا اور شادی کروا دی۔
بڑی اور منجھلی بھابی کا کہنا تھا لڑکے والے کم حیثیت ہونے چاہیے تاکہ سر پر ہر وقت اہمیت دو اہمیت دو کا ناچ نا ہو ۔
مگر وہ جسے نازوں سے پالا تھا کیا وہ اتنی ارزاں اتنی کم حیثیت تھی ۔
نائلہ کا سسرال سسرال کم اور ایک جنجال پورہ ذیادہ تھا ۔
چھے بھائی اور انکی اولادیں اب انکے کاکے منںیاں بھی گھر میں آتے جارہے تھے افراد ذیادہ اور جگہ نہایت تنگ تھی کوئی رازداری کوئی پردہ کچھ باقی نہیں بچا تھا بس صبح سے شام غیبتوں کا طوفان ایک شور مچا رہتا تھا دن بھر
رات میں سب سوتے تو کچھ سکون ہوتا محسوس ہوتا تھا
مشترکہ خاندانی نظام اس صورت میں اچھا لگتا ہے جب ہر خاندان کو اسکی مناسب جگہ میسر ہو ۔
رازداری ہو اللہ کے احکامات کی پاسداری ہو پردے کا خیال رکھا جائے تو باہمی تعلقات انتہائی خوب صورت ہوجاتے ہیں ۔
نائلہ کا شوہر زاہد فطرتا خاموش فطرت بندہ تھا ۔لیکن اتنا خاموش کہ بولنے کی جگہ پر بھی خاموش ہی رہتا تھا جس کی وجہ سے اس پر کسی ربورٹ کا گمان ہوتا تھا
تعلیم بھی کوئی خاص نہیں تھی اور نائلہ بیچاری پہ در پہ تین بچوں میں ایسی الجھی کہ بس ڈاکٹر نے بہت منع کیا اب رسک نا لینا لیکن شوہر اور ساس کو کون سمجھائے کہ جس نے باقی تین کی دیکھ بھال کرنی ہے اسے چوتھے بچے کے چکروں میں نا ڈالو سب کہہ سن کر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات
خون کی کمی، کمزوری نے نائلہ کو بالکل ہی نڈھال کر دیا تھا زاہد کی محدود آمدنی میں اچھی خوراک کا بندوبست بھی مشکل تھا
جب بھی امی سے ملنے آتی امی کبھی کوئی پھل کوئی سالن کچھ پیسے چپکے سے بنا جتائے نائلہ کے بڑے سے پرس میں رکھ دیتیں
اور یہی پرس تھا جو بڑی دونوں بھابیوں کے آنکھوں میں کھٹکتا تھا ۔
جب دل تنگ اور احساس ختم ہوجائے تو انسان ایسے ہی شقی القلب ہوجاتا ہے جہاں روز شاپر بھر بھر کر پھل آتے ہوں گوشت پکتا ہو ایک سے ایک جوڑا پہنا جاتا ہو وہاں کسی کے لیے خوشدلی سے ایک مناسب حصہ نکال دینے سے کونسی کمی آجاتی ہے ؟
مگر یہ بات ہر کسی کو سمجھ نہیں آتی ۔
زبان سے شکر ادا کرنے اور عمل سے ثابت کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔اور عملی شکر یہی ہے کہ اللہ نے جس نعمت سے نوازا ہے اس میں سے کچھ بانٹ دیا جائے ۔
آج نائلہ امی کے پاس آئی تو خاصی نڈھال سی تھی امی بھی اب تھکی۔تھکی سی لگتی تھیں بڑھتی عمر کے ساتھ بیماریاں انسان کو بہت لاغر کر دیتی ہیں لیکن مائیں ہر حال میں اپنے بچوں کے لیے جینے کی امنگ دل میں رکھتیں ہیں ۔
نائلہ امی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی بچے باہر صحن میں کھیل رہے تھے ۔
امی نے بال سہلاتے ہوئے کہا ۔
کب سے سوچ رہی تھی تم آؤ گی تو کچھ بتاؤں گی الماری میں کچھ چیزیں رکھیں ہیں میری کچھ کپڑے ،شال ایک دو جوتے اور کچھ کتابیں ہیں میں چاہ رہی تھی وہ تم لے جاؤ ۔
پتہ نہیں کب اللہ کا بلاوا آجائے اور مجھے کچھ کہنے اور بتانے کی مہلت بھی نا ملے ۔
نائلہ تڑپ کر اٹھ کر بیٹھی ۔
امی کیسی باتیں کرتی ہیں آپ اللہ آپکو صحت والی لمبی زندگی دے
امی کچھ نہیں بولیں ۔
وہاں کچن میں دونوں بھابیاں پیچ و تاب کھا رہی تھیں ۔
بڑی بھابھی سرگوشی میں بولیں
ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی جب بھی یہ نائلہ میڈم آتی ہیں اپنے اس پرس کو لیکر واپسی پر پرس کتنا پھولا پھولا لگتا ہے پتہ نہیں ساسو ماں کیا بھر بھر کر دیتی ہیں واپسی پر ؟
دینا کیا ہے منجھلی بھابی نے طنزیہ مسکرا کر کہا ۔
وہی ہمارے شوہروں کی کمائی کے لائے ہوئے پھلوں میں سے پھل راشن میں سے راشن
حد ہے بھئی ۔
انسان کی کوئی عزت نفس بھی ہونی چاہیئے شرم ہی نہیں آتی ماں بیٹی کو ۔
اچھا چھوڑو یہ سالن بھن گیا اپنے اور میرے لیے زرا بھنا ہوا نکال کر شوربہ بنا لو بس ۔
رات کو امی کی طبعیت اچانک بگڑ گئی ہوسپٹل لیکر بھاگے لیکن جو اللہ کو منظور امی جانبر نا ہوسکیں اور اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئیں ۔۔۔
ایک غم کا طوفان تھا جس سے نائلہ گزر رہی تھی دل جیسے کسی نے مٹھی میں لیکر مسل ڈالا تھا ایک ہفتہ گزر گیا تو نائلہ نے گھر جانے کی تیاری کی اور درودیوار کو ایسے دیکھا جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو امی کے انتقال کی رات سے اب تک نائلہ ایک بار بھی کھل کر نہیں روئی تھی ۔
خاموش آنسوؤں کے ساتھ پرس میں امی کی بتائی گئی چیزیں رکھنے لگی ایک دو کتاب ڈائری شال ایک سوٹ ۔۔
جانے کے لیے کمرے سے نکلی تو صحن میں دونوں بڑی بھابیاں کھڑی تھیں
ملنا تو کہاں تھا ۔
پرس کو دیکھ کر پاس آئیں اور ایک جھٹکے سے پرس کھینچ کر کہنے لگیں یہ تودکھاؤ کیا لیکر جارہی ہو ماں تو مر گئی تمھاری اب کیا بھرا ہے اس پرس میں
یہ کہہ کر پرس ساتھ پڑی چارپائی پر الٹ دیا
سوٹ شال کتابیں منہ چڑا رہی تھیں وہ تو سمجھیں تھیں پتہ نہیں کونسے خزانے بھر کر لیکر جارہی ہے ۔
نائلہ کو پتہ نہیں اچانک کیا ہوا پرس کو بھابی کے ھاتھ سے کھینچا اور سینے سے لگا کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی جیسے امی آج ہی مریں ہوں۔۔۔۔۔