بہن – کچھ تو لیجیے نا

مسز انیلا ضیاء نے رضیہ خاتون سے کہا جو تقریباً دس منٹ سے اپنی گول گول آنکھیں گھما کر امپورٹڈ اشیاء سے آراستہ ڈرائنگ روم کا جائزہ لینے میں مشغول تھیں

“بالکل…. میرااپنا گھر ہے… آپ تو سچ مانو اپنے اپنے سے لگے ہیں مجھے”

یہ کوئی تیرھواں رشتہ دیکھنے آئی تھیں وہ اپنے بیٹے کا، ضیاء الدین صاحب ریٹائرڈ کرنل تھے اور انکی مسز انیلا ضیاء ایک مشہور نجی کالج کی پرنسپل رہ چکی تھیں، انہوں نے ایک جاننے والے کے توسط اس فیملی سے رشتہ کے سلسلے میں ابھی کل ہی رابطہ کیا تھا اور آج رضیہ خاتون نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، اور مثبت جواب ملنے پر پر ایک گھنٹے بعد ہی اپنے بیٹے اور تین شادی شدہ بیٹیوں کے ساتھ انکے ہاں موجود تھیں

“یقیناً یہ سب کچھ ہماری بیٹی نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوگا”

رضیہ بیگم کو تو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کھائیں اورکیا چھوڑیں شیشے کا لمبا چوڑا میز انواع و اقسام کھانوں سےسجا ہوا تھا.

“جی بالکل بالکل” ضیاءالدین صاحب گویا ہوئے

” ابھی پچھلی سالگرہ پر ہم نے اسکو کوالہ دین کا چراغ خرید کر دیا ہے رگڑتے ہی ایک آدھےگھنٹے کےنوٹس پر یہ درجن بھر ڈشز تیار کر دی اس نے” باقی جملہ انہوں نے منہ میں بڑبڑایا تھا

“جی!!!! تو صاحبزادے کیا کرتے ہیں آپ؟”

ضیا صاحب نے پلیٹ میں شامی، سموسے، پیٹز اور چکن پیس کا پہاڑ لگائے توفیق سے پوچھا تھا جو اس وقت لیگ پیس سے نبرد آزما تھا. جبکہ انکی تینوں بیٹیاں اپنے تین چار بچوں کے ہمراہ کچھ دور ڈائننگ ٹیبل پر کھانے کھلانے میں اس قدر مصروف تھیں جیسے رشتہ دیکھنے نہیں بلکہ بھائی کے ولیمہ پر موجود ہیں.

“بزنس کرتا ہے بھائی صاحب میرا بیٹا فوڈ بزنس ہے اسکا، بس جی……. خاندان والے تو ایسے مطلبی کہ نظر رکھی ہوئی میرے بچے پر بس میرا دل نہیں مانتا ان ٹٹ پونجیوں کی لڑکیوں کیلئے . میں نے تو سوچا ہوا اپنے بچے کے جوڑ کی بہو لاؤں گی بس “

قد آدم کھڑکی سے باہر کھڑی گاڑیوں پر نظر رکھے رضیہ بیگم نے جواب دیا

” ویسے…. ان میں ہماری بھابی کی گاڑی کونسی ہے.؟ “

انکی بڑی بیٹی نے ماں کی نظروں کے تعاقب میں اپنے تین سالہ بچے سے دوپٹہ چھڑاتے ہوئے گفتگو میں دخل دیا جو شاید کیک اور مانگ رہا تھا

“کمال کرتی ہیں آپ.بھئی آپکی بھابھی کی گاڑی آپکے گھر ہو گی ہمارے کیسے ہو سکتی بھئی”

ضیاء الدین نے اکتائے لہجے میں کہا

“جج…. جی… وہ میرا مطلب….. یہ دونوں گاڑیاں آپکی ہیں؟”

… خجالت مٹانے کو مزید بے تکا سوال داغا، بھابھی کا لفظ جانے کیوں منہ سے پھسل گیا تھا.

” جی جی… انکے علاوہ ایک ہمارے بیٹے کے پاس ہوتی ہےجو آجکل شمالی علاقہ جات گیا ہوا ہے”

انیلا بیگم نے ماں بیٹی کے اشارے سمجھتے ہوئے تفصیلی جواب دیا

بچیاں کہاں رہتی ہیں آپکی؟ ملنے آئی ہوں گی آپ سے؟

ضیاء صاحب کے پوچھنے پر رضیہ بیگم نے پہلو بدلا تھا

“وہ دراصل اماں کی دور کی نظر ذرا کمزور ہے ایک بار رشتہ پسند کر آئی تھیں ہم نے دیکھا تو لڑکی کی ایک آنکھ ذرا چھوٹی لگ رہی تھی، اس لیے اب ہم ساتھ ہی جاتی ہیں رشتہ دیکھنے” منجھلی بیٹی بولی تھی

“اور یاد ہے ایک بار کالی سی لڑکی پسند کر آئی تھیں کم روشنی میں پتہ نہیں چلا تھا انکو” چھوٹی بیٹی نے قہقہہ لگایا

” مجھے تو لگتا قریب کی نظر بھی ٹھیک نہیں بہن جی کی، کیونکہ آنکھیں تو مجھے صاحبزادے کی بھی چھوٹی بڑی لگ رہی ہیں….. بلکہ کافی فرق ہے، ضیاء صاحب نے بغور دیکھتے ہوئے کہا

توفیق کو تو کرنٹ لگا تھا رس ملائی کا چمچ باہر اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا

ارے ارے… یہ تو تین چار گولڈن سے دانت نظر آ رہے اسکا مطلب دانت بھی اصلی نہیں ہیں برخوردار کے

“یہ کیا مذاق ہے؟” وہ غصے سے اٹھا سب لوگ ہی سکتے میں آ گئے تھے

“مذاق کر رہے ہیں تمہارے انکل…. . عادت ہے انکی بیٹھ جاؤ بیٹا!”

انیلا بیگم نے حالات کنٹرول کیے

“معاف کرنا بہن ایسا مذاق زیب نہیں دیتا وہ بھی لڑکی والوں کو” وہ نروٹھے پن سے بولیں اور ہاتھ پکڑ کر توقیق کو بٹھایا دراصل وہ عالیشان گھر اور ڈرائنگ روم کی شان و شوکت سے مرعوب ہو چکی تھیں اور اس رشتے پر انکا دل آ گیا تھا.

شش شش….. انکی چھوٹی بیٹی نے ماں کی توجہ ڈرائنگ روم کے منقش چوبی دروازے کی طرف دلائی . سادہ کاٹن کے ہلکے گلابی شلوار سوٹ میں ملبوس سفید دوپٹہ سر پر جمائے تانیہ چائے رکھ کر خاموشی سے چلی گئی تھی اور محفل میں کھسر پھسر شروع ہو گئی

” لڑکی کی عمر کچھ زیادہ لگ رہی ہے” رضیہ خاتون نے سرگوشی کی

“تمیز تک نہیں ہےسلام تک نہیں بولی” یہ چھوٹی صاحبزادی تھی

“اتنے بڑے گھر کی لڑکی فیشن نام کو نہیں، مجھے تو چال میں بھی کچھ لڑکھڑاہٹ لگ رہی تھی اور گردن اتنی چھوٹی تھی جیسے ہے ہی نہیں ” بڑی بیٹی نے جیسے کوئی چوری پکڑی تھی

“مگر یقیناً جہیز سے گھر بھر دے گی بلکہ ہو سکتا کوٹھی وغیرہ ہی دے دیں جہیز میں” یہ سب کی مشترکہ رائے تھی

” دیکھیں!!!! مجھے لگی لپٹی کی عادت نہیں، میرابیٹا ہیرا ہے ہیرا ہے…. وہ کیا کہتے سیلف میڈ ہے. ساری عمر محنت کرکے تین بہنوں کی شادیاں کی ہیں. اب میں چاہتی ہوں کہ بہو جہیز میں اتنا تو لائے کہ یہ سکون سے زندگی گزار سکے. گھر گرہستی کا سامان اور گاڑی تو سب دیتے ہی ہیں ، اگر آپ چھوٹا سا گھر بھی نام کر دیں تو آپکی بیٹی کا ہی بھلا ہے.”

جی جی….. کیوں نہیں… آپ کا حکم سر آنکھوں پر انیلا بیگم نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا

” ویسے تو بچی کی عمر کچھ زیادہ لگ رہی ہے، اور چال بھی ذرا ٹیڑھی ہے، پر چلو خیر ہم تو سیرت دیکھنے والے لوگ ہیں صورت کا کیا ہے؟ ….. ہمیں یہ رشتہ قبول ہے

اتنی آسانی سے مانتا دیکھ کر رضیہ نے گویا انکی سات نسلوں پر احسان کیا

صرف گھر اور گاڑی آپ کچھ زیادہ ہی سستا نہیں بیچ رہی ہیں اپنے کوہ نور کو؟

سمجھی نہیں بھائی صا…. ضیاء الدین نے اشارے سے منع کر کے اپنی بات جاری رکھی

“دیکھیں!!!!! برینڈڈ چیزوں پر ٹیگ ضرور ہوتے ہیں، آپ نے اپنے بیٹے کے گلے میں پرائس ٹیگ کیوں نہیں ڈالا ہوا؟”

“اور ہاں تین بہنوں کو بیاہ کر کم از کم چالیس کے قریب تو ہو چکے ہیں آپ کے صاحبزادے اور لڑکی آپکو اٹھارہ برس کی چاہیے. تین بیٹیوں کی ماں ہو کر آپ درجن بھر گھروں کی بچیوں کو رد کرتی آئی ہیں “

“بہت ہو گئی بہن یہ کیسا مذاق تھا رشتہ نہیں کرنا تو کیا بے عزت کرنے بلایا تھا ہمیں” رضیہ کے تو سر پہ لگی تلووں پہ بجھی

” دیکھیں!!! آپکو بلایا ہے تو تواضع بھی تو کی ہے ہم نے”، اب کی بار انیلا بیگم نے بھی مسکراتے ہوئے کہا

“تواضع نہیں بیگم!!!! خاطر تواضع کہیے” ضیاء صاحب کا قہقہہ بے ساختہ تھا

چلو اٹھو… بہت ہو گئی………. رکھیں یہ اپنی لڑکی ساری عمر گھر بٹھا کر…..”

باجی کھانا لگا دوں؟ تانیہ نے اندر جھانک کر انیلا سے پوچھا

کیا مطلب بب… باجی یہ بیٹی نہیں آپکی منجھلی بیٹی نے حیرت سے کہا

“دس سال کی تھی جب سے کام کر رہی ہوں اس گھر میں. بیٹی کی طرح رکھا ہے صاحب جی اور باجی جی نے مجھے… بیاہ کیا میرا اور میرے تینوں بچوں کی تعلیم کا خرچ بھی اٹھا رہے ہیں، اللہ انکو بہت بہت دے ” تانیہ نے جھولی اٹھا کر دعا دی تھی

مہمانوں پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے

اصل میں ہماری کوئی بیٹی نہیں ہے. ریٹائرمنٹ کے بعد فارغ وقت گزرتا نہیں، تو میرے ایک دوست ہیں فی سبیل اللہ رشتے کرواتے ہیں ان سے اگر آپ جیسے لوگوں کا واسطہ پڑے تو ہم ان محترم لوگوں کو جنہوں نے اپنے بیٹوں کو کیش کروانے کیلئے دوسروں کی بچیوں کو شو پیس سمجھا ہوا ہے، انکو آئینہ دکھانے کیلئے انوائٹ کر لیتے ہیں تو وقت اچھا گزر جاتا ہے……. بس چھوٹا سا مشغلہ ہی سمجھیے “

ارے ایسی کی تیسی….. بھاڑ میں جائیں آپ لوگ جوتے مارنے کیلئے بلا لیا ہمیں…. ہونہہ چلو بچو!!!!! نکلو ان فراڈیوں کے گھر سے…….

رضیہ کی آواز میں بے عزتی کی ذلت سے زیادہ رنج اور ملال تھا اتنے اچھے گھر رشتہ نہ ہونے کا

” ارے نہیں بہن!!!! کھانا تو کھا کر جائیے گا بریانی منگوائی ہے آپ کے بیٹے کے ہاتھ کی ہی بنی ہوئی ہے، توفیق عرف فیقا بریانی والے سے….. کھانا پسند نہیں کریں گی؟” ضیاء الدین صاحب نے پکارا

مگر وہ نہیں رکی تھیں

writer: (طیبہ صبا حت)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *